42 سالہ احمد اور 18 سال کی زارا کی محبت کی سچی داستان

ایک چھوٹے سے قصبے میں احمد نام کا ایک شخص رہتا تھا۔ عمر کے حساب سے وہ تقریباً پینتالیس برس کا تھا۔ نرم مزاج، باادب اور لوگوں کا خیال رکھنے والا۔ محلے کے بچے اس کو "احمد انکل” کہہ کر پکارتے تھے۔ احمد انکل کی عادت تھی کہ وہ سب کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے، مگر اندر ہی اندر ایک عجیب سا سکون تلاش کرتے رہتے۔

اسی محلے میں زارا نام کی ایک لڑکی رہتی تھی۔ زارا کی عمر ابھی ابھی اٹھارہ سال ہوئی تھی۔ وہ معصومیت اور شوخی کا حسین امتزاج تھی۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ بہت ہنس مکھ اور شرارتی طبیعت کی مالک تھی۔ اکثر وہ احمد انکل کو دیکھ کر مسکرا دیتی اور چھوٹے موٹے سوال کر لیا کرتی۔

شروع میں احمد انکل نے اس کو بچی سمجھ کر ٹال دیا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ زارا کی معصوم باتیں، اس کی مسکراہٹ اور توجہ نے احمد انکل کے دل میں کچھ نرم نرم جذبات جگا دیے۔ وہ ہر روز دل ہی دل میں خود کو سمجھاتے کہ "یہ تو بس ایک بچی ہے، مجھے ایسا نہیں سوچنا چاہیے۔” مگر دل کے جذبات کہاں قابو میں آتے ہیں؟

### پہلا لمسِ محبت

ایک دن بارش بہت زور سے ہو رہی تھی۔ زارا کالج سے واپس آ رہی تھی کہ اچانک بجلی چلی گئی اور گلی اندھیرے میں ڈوب گئی۔ وہ ڈر گئی اور بھاگ کر احمد انکل کے گھر کے دروازے پر آ کر دستک دی۔ احمد انکل نے فوراً دروازہ کھولا۔ زارا کے کپڑے بارش میں بھیگے ہوئے تھے۔ اس کے لرزتے وجود کو دیکھ کر احمد انکل نے فوراً کمبل لا کر اس کے گرد لپیٹا۔ وہ لمحہ دونوں کے دلوں پر کچھ نقش چھوڑ گیا۔ زارا نے پہلی بار محسوس کیا کہ احمد انکل صرف محلے کے بزرگ نہیں، بلکہ کوئی ایسا سہارا ہیں جو اس کو تحفظ دے سکتا ہے۔




### محبت کا اعتراف

وقت گزرتا گیا۔ دونوں کی ملاقاتیں کبھی کبھی ہو جاتی تھیں۔ زارا اکثر اپنی پڑھائی کے حوالے سے مشورہ لینے آ جاتی۔ انکل بڑی سنجیدگی سے رہنمائی کرتے لیکن دل میں ایک طوفان دبائے رکھتے۔
ایک دن زارا نے احمد انکل کو کہا:
"انکل، آپ سے ایک بات پوچھوں؟”
احمد نے مسکرا کر کہا: "ہاں بیٹا، پوچھو۔”
زارا نے جھجکتے ہوئے کہا: "آپ ہمیشہ مجھے بیٹی کیوں کہتے ہیں؟ کبھی دل میں یہ نہیں آتا کہ میں آپ کے لیے کچھ اور بھی ہوں؟”

احمد چونک گئے۔ وہ لمحہ ان کے لیے حیرت انگیز تھا۔ دل کی دیواریں جو برسوں سے مضبوط تھیں، ایک جھٹکے میں ٹوٹ گئیں۔ احمد کی آنکھوں میں نمی آگئی۔
"زارا، یہ کیسی باتیں کر رہی ہو؟ میں تم سے عمر میں بہت بڑا ہوں۔ لوگ کیا کہیں گے؟”

زارا نے نرمی سے کہا: "محبت کو لوگ نہیں تولتے انکل۔ محبت تو دل میں جنم لیتی ہے۔ مجھے آپ سے ڈر نہیں لگتا، سکون ملتا ہے۔ اور سکون ہی تو محبت ہے۔”

### رشتہ یا فاصلہ؟

یہ لمحہ دونوں کے درمیان فیصلہ کن تھا۔ احمد کے دل میں بھی وہی جذبات تھے مگر وہ معاشرتی بندشوں اور اپنی عمر کے فرق کو دیکھ کر تذبذب کا شکار تھے۔ کئی راتیں وہ جاگتے رہے۔ آخرکار ایک دن انہوں نے ہمت کر کے زارا کے والدین سے بات کی۔ شروع میں سب حیران رہ گئے لیکن احمد کی شخصیت، اس کی نیکی اور ذمہ داری کو دیکھتے ہوئے سب مان گئے۔

زارا کے والد نے کہا: "اگر میری بیٹی کو سکون تمہارے ساتھ ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔”

### اختتام

یوں ایک انکل اور اٹھارہ سالہ لڑکی کی محبت نے معاشرتی رکاوٹوں کو توڑ کر ایک نیا رنگ اختیار کیا۔ ان دونوں کی محبت عمر کے فرق سے بالاتر ہو گئی۔ احمد کو اپنی زندگی کا سکون ملا اور زارا کو وہ شخص ملا جس پر وہ بھروسہ کر سکتی تھی۔

About Amir

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے