10 سیکنڈ کی جنسی ہراسانی: جج کا انوکھا فیصلہ

نوٹ: یہ آرٹیکل برطانوی نشریاتی ادارے کی ملکیت ہے.اس صوفیہ بیٹیزا نے تحریر کیا ہے. ہم اسے زیادہ سے زیادہ قارئین تک پہنچانے کے لیے بی بی سی اُردو کے شکریہ کے ساتھ شائع کر رہےہیں.

اٹلی کی ایک عدالت نے ایک سکول طالبہ کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے ملزم کو یہ کہہ کر بری کر دیا ہے کہ اس عمل کا دورانیہ محض 10 سیکنڈ تھا۔

جج کے اس فیصلے کے خلاف اٹلی کے سوشل میڈیا پر نوجوانوں کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آ رہا ہے۔جنسی طور پر ہراساں کرنے کا یہ واقعہ اٹلی کے شہر روم میں 17 سالہ سکول طالبہ کے ساتھ پیش آیا ہے۔

طالبہ کے مطابق وہ اپنی دوست کے ہمراہ کلاس لینے کے لیے سکول کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی کہ ان کو اچانک احساس ہوا کہ کسی نے ان کا پاجامہ نیچے کھسکا کر ان کے زیر جامہ کو کھینچا اور کولہوں پر چٹکی کاٹی۔طالبہ کے مطابق ’جیسے ہی میں نے پلٹ کر دیکھا تو پیچھے موجود شخص نے ہنستے ہوئے کہا کہ ارے! میں تو تم سے مذاق کر رہا تھا۔‘

یہ واقعہ گزشتہ سال اپریل 2022 میں پیش آیا تھا جس کے بعد متاثرہ طالبہ نے سکول سٹاف میں شامل اس 66 سالہ شخص انتونیو اوولا کے خلاف پولیس میں شکایت درج کروائی۔

انتونیو نے اپنی اس حرکت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ’میں تو محض مذاق کر رہا تھا۔‘

اس واقعے کے خلاف روم کے ایک پبلک پراسیکیوٹر نے انتونیو کو ساڑھے تین سال قید کی سزا سنانے کی درخواست کی تاہم رواں ہفتے انتونیو کو الزامات سے بری کر دیا گیا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ’جو کچھ ہوا اسے جرم نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس کا دورانیہ 10 سیکنڈ سے بھی کم رہا۔‘

عدالتی فیصلے کے خلاف اٹلی کے نوجوانوں کی جانب سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے اور سوشل میڈیا پر اس کے خلاف ہیش ٹیگ 10 سیکنڈ بھی ٹرینڈ کر رہا ہے۔

اٹلی کے نوجوانوں نے احتجاج کے طور پر ٹک ٹاک اور انسٹا گرام پر اپنی ایسی ویڈیوز شیئر کی ہیں جس میں وہ 10 سیکنڈ تک خاموشی سے کیمرے کو دیکھتے ہوئے اپنے جنسی اعضا کو چھو رہے ہیں۔

جنسی اعضا کو چھونے والی ان ویڈیوز کو دیکھنا تکلیف دہ اور ناگوار محسوس ہوتا ہے تاہم نوجوانوں کے مطابق اس احتجاج کا مقصد صرف یہ دکھانا ہے کہ جنسی بدسلوکی کا عمل 10 سیکنڈ تک بھی کتنا تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔

اس انوکھے احتجاج میں سب سے پہلے اٹلی سے تعلق رکھنے والے ایکٹر اور مصنف پاؤلو کیملی نے اپنی ویڈیو پوسٹ کی، جس کے بعد ہزاروں لوگوں نے ان کی تقلید میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔

اٹلی کے ایک انفلوئنسر فرانسسکو چیکونیٹی نے ٹک ٹاک پرلکھا کہ ’یہ فیصلہ کون کرسکتا ہے کہ 10 سیکنڈ زیادہ لمبا وقت نہیں؟ جب آپ کو ہراساں کیا جا رہا ہو تو سیکنڈز کو کون گنتا ہے؟‘

انھوں نے لکھا کہ ’مردوں کو عورتوں کے جسم کو چھونے کا حق نہیں، پانچ یا 10 سیکنڈ کو چھوڑ دیں ،ایک سیکنڈ کے لیے بھی انھیں یہ حق نہیں۔‘

فرانسسکو چیکونیٹی نے مزید لکھا کہ ’ججوں کا ملزم کو بری کرنے کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ اطالوی معاشرے میں جنسی طور پر ہراساں کرنا کس قدر عام اور قابل قبول ہے۔‘

متاثرہ طالبہ نے کوریئر ڈیلا سیرا نامی اخبار سے گفتگو میں بتایا کہ ’ججوں نے فیصلہ دیا کہ وہ مذاق کر رہا تھا مگر یہ میرے لیے کوئی مذاق نہیں تھا۔‘

’وہ خاموشی سے میرے پیچھے آیا، اس نے اپنا ہاتھ میری پتلون کے نیچے موجود میرے زیر جامہ میں ڈال دیا۔ اس نے میرے کولہوں کو پکڑ کر چٹکی کاٹی اور میرے جنسی اعضا کو نقصان پہنچایا۔ میرے لیے یہ ہرگز مذاق نہیں۔‘

طالبہ کے مطابق ’کیا ایک عمر رسیدہ شخص کو ایک نوجوان طالبہ کے ساتھ ایسا ’مذاق‘ زیب دیتا ہے۔ وہ چند سیکنڈز اپنے جسم کے پوشیدہ اعضا پر اس مرد کے ناپسندیدہ لمس کا احساس دلانے کے لیے بہت ذیادہ تھے۔‘

طالبہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے سکول اور نظام انصاف کے دوہرے معیار ہر افسردہ ہیں۔ ’میں سوچتی ہوں کہ اداروں پر بھروسہ کرنا میری غلطی تھی، میرے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔‘

دوسری جانب طالبعلموں میں یہ اندیشہ سر اٹھا رہا ہے کہ یہ فیصلہ لڑکیوں اور خواتین کو آگے بڑھ کر اپنے حق لینے کی راہ میں رکاوٹ کا سبب بن سکتا ہے کہ کہیں وہ بھی ایسے حملوں کا نشانہ بنیں تو ان کو انصاف نہیں مل سکے گا۔

یورپی یونین کی بنیادی حقوق کی ایجنسی (FRA) کے حالیہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2016 اور 2021 کے درمیان ہراسانی کے واقعات کا شکار ہونے والی 70 فیصد اطالوی خواتین نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو رپورٹ نہیں کیا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں