باجوڑ ، جے یو آئی کے کنونشن میں دھماکا، 20 جاں بحق 200 سے زائد زخمی

پشاور(ایس این این) خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ کے صدر مقام خار میں جمیعت علما اسلام کے ورکرز کنونشن میں ہونے والے دھماکے میں جاں بحق افراد کی تعداد 40 ہوگئی۔دھماکے میں جیو نیوز کے کیمرہ مین سمیع اللّٰہ بھی شدید زخمی ہوئے ہیں، دھماکے میں 200 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں، کئی زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے، دھماکے میں جمعیت علما اسلام کے کئی مقامی عہدیدار بھی جاں بحق ہوئے ہیں۔تحصیل خار کے امیرضیا اللّٰہ جان اور تحصیل ناواگئی کے جنرل سیکریٹری حمیداللّٰہ حقانی بھی جاں بحق ہوئے۔انسپکٹر جنرل (آئی جی) خیبر پختونخوا نے دھماکہ خود کش ہونے کی تصدیق کردی ہے۔انہوں نے بتایا کہ 10 کلوگرام بارودی مواد استعمال کیا گیا۔ دھماکے کی جگہ سے بال بیئرنگ ملے ہیں، دھماکے میں جن زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہے، انہیں آرمی کے ہیلی کاپٹر سے پشاور منتقل کر دیا گیا ہے۔صدر مملکت عارف علوی، وزیراعظم شہباز شریف، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، سابق صدر آصف زرداری، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمان نے دھماکے کی شدید مذمت کی۔وزیر اعظم شہباز شریف نے سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان اور وزیر مواصلات مولانا اسعد محمود کو ٹیلی فون کیا مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کی یقین دہانی کروائی۔شہباز شریف نے آئی جی خیبر پختونخوا کو فوری ایکشن لینے کی ہدایت کی۔ترجمان جمعیت علما اسلام خیبر پختوا عبدالجلیل جان کا کہنا ہے کہ جے یو آئی ورکرز کنونشن میں 4 بجے کے قریب دھماکا ہوا، مولانا لائق کی تقریرکے دوران دھماکا ہوا۔عبدالجلیل جان کا کہنا ہے کہ ممبر قومی اسمبلی مولانا جمال الدین اور سینیٹر عبدالرشید بھی کنونشن میں موجود تھے، جے یو آئی تحصیل خار کے امیر مولانا ضیاء اللّٰہ دھماکے میں جاں بحق ہوئے ہیں۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا ہے کہ باجوڑ میں جے یو آئی کے جلسے میں بم دھماکہ انتہائی قابل مذمت ہے، حملے کا مقصد ملک میں افراتفری کی صورتحال پیدا کرنا ہے۔حکومت کی ذمہ داری ہے کہ تمام سیاسی قائدین اور شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے، بم دھماکے کی فوری اور مکمل تحقیقات کروا کر مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ترجمان حافظ حمداللّٰہ کا کہنا ہے کہ اس جلسے میں مجھے دعوت دی گئی تھی ، لیکن کچھ ذاتی اہم مصروفیت کی وجہ سے نہ جاسکا۔حافظ حمداللّٰہ نے کہا کہ یہ جمعیت علما اسلام پر نہیں جمہوریت پر حملہ ہے، اس کا جواب آئندہ انتخابات میں دیا جائے گا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں