جب لوگ آزادی کا جشن منارہے تھے تو غلام فاطمہ کی روح جسم سے آزاد ہورہی تھی

پاکستان کا یوم آزادی 14 اگست کو منایا جاتا ہے۔ پاکستانی بچے جوش و خروش سے یہ دن مناتے ہیں۔ اس آزاد ملک کی آزادی منانے کی خواہش یقیناً رانی پور کی فاطمہ کو بھی تھی۔جب ساری قوم آزادی منارہی تھی۔ فاطمہ کا جسم پامال ہو کر روح کو آزاد کر کے ایک اذیت ناک غلامی سے آزاد ہو رہا تھا۔


صوبہ سندھ کے علاقے رانی پور میں پیری مریدی کے کام سے وابستہ ایک خاندان میں کام کرنے والی کمسن گھریلو ملازمہ کی مبینہ تشدد سے ہلاکت کے کیس میں پولیس نے اس واقعے میں نامزد مرکزی ملزم، علاقہ ایس ایچ او اور بچی کا علاج کرنے والے ڈاکٹر کو گرفتار کر لیا ہے۔ایس ایچ او رانی پور کو فرائض سے غفلت برتنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے جبکہ مرکزی ملزم کی گرفتاری بچی کی والدہ کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کی بنیاد پر کی گئی ہے۔پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ بچی کی ہلاکت کی اصل وجوہات جاننے کے لیے جمعرات کو سیشنز عدالت میں قبر کشائی اور میت کا پوسٹ مارٹم کرنے کی درخواست بھی دے دی گئی ہے۔


10 سالہ بچی سندھ کے علاقے رانی پور میں ایک پیر گھرانے کی حویلی میں بطور ملازمہ کام کرتی تھیں تاہم دو روز قبل اس کے والدین کو بذریعہ فون آگاہ کیا گیا تھا کہ پیٹ میں درد کے باعث ان کی بچی کی ہلاکت ہو گئی ہے۔ضلع نوشہرو فیروز سے تعلق رکھنے والے بچی کے والدین نے میت وصول کرنے کے بعد گاؤں میں گذشتہ روز اس کی تدفین کر دی تھی۔تاہم تدفین سے قبل ہی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں 10 سالہ بچی کے جسم اور سر پر تشدد اور زخموں کے نشانات نظر آ رہے ہیں۔اگرچہ آزادانہ ذرائع سے اس ویڈیو کی تصدیق نہیں نہیں ہو سکی ہے تاہم پولیس حکام نے کہا ہے کہ انھوں نے ملزم پیر کی حویلی میں نصب کیمروں کا مکمل ریکارڈ حاصل کر لیا ہے جس کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔


اس ابتدائی ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد ایک سی سی ٹی وی فوٹج بھی شیئر ہوئی جس میں نظر آتا ہے کہ ایک بچی زمین پر پڑی تکلیف میں کراہ رہی ہے اور اسی دوران ایک خاتون اور ان کے پیچھے آتی ہوئی ایک بچی کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔کمرے میں داخل ہونے والی خاتون کے انتباہ پر اُسی کمرے میں بیڈ پر لیٹا ہوا شخص جلدی سے اٹھتا ہے اور بچی کی سانسیں چیک کرتا ہے۔اس نوعیت کی مزید ویڈیوز سامنے آنے کے بعد ایس ایس پی خیرپور گذشتہ روز متاثرہ خاندان کے گھر پہنچے اور بچی کی والدہ سے ملاقات کی۔ پولیس کے مطابق بچی کی والدہ کو یقین دہانی کروائی گئی کہ وہ ایف آئی آر درج کرائیں تاکہ اس معاملے کی تفتیش ہو سکے اور ملزمان کو گرفتار کیا جا سکے۔


پولیس کی جانب سے یقین دہانی کے بعد اس واقعے کا مقدمہ بچی کی والدہ کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔ایف آئی آر میں کہا ہے کہ ہلاک ہونے والی بچی گذشتہ نو ماہ سے ملزم کی حویلی پر کام کرتی تھی۔ والدہ کے مطابق کچھ عرصہ قبل جب وہ اپنی بچی سے ملنے حویلی گئے تھے تو بچی نے بتایا تھا کہ پیر (ملزم) اور ان کی اہلیہ اس سے بہت زیادہ کام کاج کرواتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی بات پر مار پیٹ بھی کرتے ہیں۔والدہ کے مطابق انھوں نے بچی کی شکایت سُن کر پیر کی اہلیہ سے ملاقات بھی کی اور ان سے ’رحم کی گذارش‘ کی جس کے بعد وہ اپنے شوہر کے ہمراہ گھر واپس آ گئیں۔


مدعی مقدمہ کے مطابق 14 اگست کی دوپہر انھیں حویلی سے ایک شخص کی کال موصول ہوئی کہ اُن کی بیٹی طبعیت میں خرابی کے باعث فوت ہو گئی ہے اور اس کی لاش لے جائیں۔ ایف آئی آر کے مطابق والدہ نے ملزم پیر سے بچی کی ہلاکت سے متعلق استفسار کیا تو وہ کوئی خاطر خواہ جواب نہ دے سکے۔والدہ کے مطابق وہ اپنی بچی کی میت کو گاؤں لے آئے اور اس کی تدفین کر دی۔ یہ ایک دردناک واقعہ ہے جو معصوم بچی کی زندگی کی تلخ حقیقت کا مظہر ہے۔ اس واقعے کی گہرائیوں میں چھپے درد اور اذیت کے تاثرات دل شکن ہیں۔ یہ ایک خاندان کی کہانی ہے جس نے ایک آزاد مملکت کی غلام بچی کو اپنی ہوا و ہوس کا نشانہ بنایا اور اُسے قبل از وقت موت کی راہوں کے ہولناک سفر پر بھیج دیا۔ بچی کے والدین کے دل کی دھڑکنوں میں کئی سوالات اور خوف زدہ سانسوں میں تشنگی کی تپش تھی، جب انھوں نے اپنی بچی کی تکلیفوں اور زخموں کو دیکھا اور اسے فطری موت کی جگہاس طرح مرتے دیکھا۔ہمارے معاشرتی نظام میں اس قسم کے جرائم کے خلاف قوانین اور سزاؤں کی کمی، بچوں کی حفاظت پر ایک سوالیہ نشان ہے۔کیا ہمارا معاشرہ اس قسم کے ہولناک واقعات سے پاک ہو سکے گا؟؟؟ ہمارے افعال اور حالات تو اس کی نشان دہی کرتے نظر نہیں آتے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں