پٹرول کی اصل قیمت کیا ہے؟ عوام 1 لٹر پر کتنا ٹیکس دے رہے ہیں؟ مکمل رپورٹ

31 اگست کی شام سے ہی پاکستان کے مختلف شہروں میں پیٹرول پمپس پر موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کی طویل قطاریں لگنا شروع ہو چکی تھیں۔
ان قطاروں کی وجہ پیٹرول کی قلت نہیں تھی بلکہ لوگ یکم ستمبر سے پیٹرول کی قیمت میں ہونے والے ممکنہ بڑے اضافے کے پیشِ نظر تیل بھروانے کے لیے جمع تھے۔قیمت میں ممکنہ اضافے کا یہ خدشہ غلط ثابت نہیں ہوا اور جیسے ہی 31 اگست کی تاریخ ختم ہونے کے قریب آئی تو پاکستان کی وزارت خزانہ کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے جس کے بعد پیٹرول اور ڈیزل کی فی لیٹر قیمت 300 کا ہندسہ عبور کر کے ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔
وزارت خزانہ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں فی لیٹر 14.91 روپے جبکہ ڈیزل کی قیمت میں 18.44 روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے اور اب آئندہ 15 دن کے لیے جہاں پٹرول کی فی لیٹر قیمت 305.36 روپے ہو گئی ہے وہیں ایک لیٹر ڈیزل 311.84 روپے میں ملے گا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل نگران حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان قیمتوں میں بالترتیب ساڑھے 17 اور 20 روپے فی لیٹر اضافے کا اعلان کیا تھا یوں نصف ماہ میں پیٹرول کی قیمت میں قریب 35 روپے فی لیٹر کا اضافہ کیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق 15 اگست کو عالمی سطح پر برینٹ خام تیل کی قیمت 85.08 ڈالر تھی جو یکم ستمبر کو 87.01 ڈالر ہے۔ یعنی عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں اتنا رد و بدل نہیں ہوا ہے اور پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اس حالیہ اضافے کو آئی ایم ایف کی کڑی شرائط، روپے کی تسلسل سے جاری بےقدری اور حکومتی ٹیکسز سے جوڑا جا رہا ہے۔
معاشی امور پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی شہباز رانا نے بی بی سی کو بتایا کہ زیادہ خطرے کی بات یہ ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں یہاں بھی نہیں رُکیں گی بلکہ ان میں ڈالر کی قیمت میں اضافے اور روپے کی بےقدری کے ساتھ مزید اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔
پیٹرول کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے بعد پاکستان میں یہ بحث بھی چھڑ گئی ہے کہ پیٹرول کی اصل قیمت کیا ہے اور حکومت اس پر کتنا ٹیکس لے رہی ہے۔
اگر پیٹرول کی تازہ ترین فی لیٹر قیمت کو دیکھا جائے تو پاکستان کی آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق 305.36 روپے میں سے ایندھن کی ایکس ریفائنری فی لیٹر قیمت 228.59 روپے بنتی ہے۔
اس کے بعد اگلا بڑا حصہ حکومتی ٹیکس کا ہے جسے پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کہا جاتا ہے۔ یہ ہے تو ٹیکس ہی مگر اسے سیلز ٹیکس کا نام نہ دینے کی وجہ وفاقی حکومت کا یہ رقم خود جمع کرنا ہے۔
قیمت میں تیسرا حصہ ان اخراجات کا ہے جو ایندھن کی ترسیل، اسے فروخت کرنے والے ادارے اور پیٹرول پمپ ڈیلران کے کمیشن کی مد میں آتا ہے۔ ان تمام اخراجات کو اکٹھا کریں تو صارف فی لیٹر 16.77 روپے اس مد میں ادا کر رہا ہے۔
حکومت فی لیٹر پر اتنا زیادہ ٹیکس کیوں وصول کرتی ہے؟
حکومتِ پاکستان نے رواں برس جولائی میں آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا اس کے تحت ایک لیٹر پر پی ڈی ایل کی مد میں 60 روپے وصول کیے جانے ہیں۔
قیمتوں میں حالیہ اضافے میں پی ڈی ایل کی شرح اس ہدف تک پہنچ گئی ہے یعنی اب پاکستانی عوام ہر ایک لیٹر پیٹرول خریدنے پر حکومت کو 60 روپے ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔

شہباز رانا کے مطابق استعمال پر ضرور ٹیکس عائد کیے جاتے ہیں مگر ایسا کرنے سے قبل لوگوں کی قوت خرید کو بھی مدنظر رکھا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق اس وقت ملک میں 38 فیصد سے زیادہ افراط زر ہے جبکہ پاکستان میں اکثریت لوگوں کی فی کس آمدن دو ڈالر سے بھی کم ہے۔
سابق ممبر پالیسی فیڈرل بورڈ آف ریونیو ڈاکٹر حامد کے مطابق دنیا کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں تو شاید پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کچھ زیادہ نہیں ہیں مگر صارفین کی قوت خرید کم ہونے کی وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ قیمتیں زیادہ ہیں۔
ان کے مطابق اس وقت امریکہ اور یورپی ممالک میں فی لیٹر پیٹرول کی قیمت تین ڈالر تک ہے جبکہ سعودی عرب میں قیمت لگ بھگ پاکستان جتنی ہی بنتی ہے لیکن ان ممالک میں بسنے والے افراد کی قوتِ خرید پاکستانی شہریوں کی نسبت کئی گنا زیادہ ہے۔
مصباح شہزاد اسلام آباد کے علاقے غوری ٹاؤن کی رہائشی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پیٹرول کی نئی قیمتوں کا سن کر اب وہ 31 اگست کی شام سے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر اس پر غور کر رہی ہیں کہ اپنی گاڑی چھوڑ کر اب ہم موٹرسائیکل کا استعمال شروع کر دیں۔
ان کے مطابق ایک طرف تو ان کی تنخواہ کا بڑا حصہ ٹیکسز میں چلا جاتا ہے اور دوسری طرف انھیں اب فی لیٹر پیٹرول پر علیحدہ سے بھی اپنی جیب سے بھاری ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے، جس کے بعد گھر کا بجٹ خراب ہو جاتا ہے۔
مصباح کے مطابق یہ سارے ٹیکس ادا کرنے کے بعد اب صورتحال یہ ہے کہ ان کے مہینے کے آخری دس دن جیسے قیامت کے گزرتے ہیں کیونکہ مہینہ ختم ہونے سے قبل ہی سب پیسے خرچ ہو چکے ہوتے ہیں۔
اب یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ حکومت کا ٹیکسز عائد کرنے کا طریقہ کار کیا ہے اور اس نظام میں ایسی کون سی ممکنہ خرابیاں ہیں کہ عام شہریوں کو اپنی قوت خرید کی نسبت زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔
کیا ٹیکس کے نظام میں نقائص پاتے جاتے ہیں؟

ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر حامد عتیق سرور نے بی بی سی کو بتایا کہ نیشنل فنانس ایوارڈ کے تحت ریونیو کا بڑا حصہ صوبوں کو چلا جاتا ہے۔
ان کے مطابق دفاع کے اخراجات ہوں یا روزمرہ کے معاملات، قرضوں کی ادائیگی ہو یا دیگر فرائض کی انجام دہی تو اس سب کے لیے پیسہ تو حکومت کو چاہیے۔
ان کے مطابق جب صوبوں سے زیادہ پیسہ وفاق کو نہیں ملتا تو پھرحکومت اس طرح کے ٹیکسز کی طرف جاتی ہے۔ ڈاکٹر حامد کے مطابق اس وقت پیٹرول پر جنرل سیلز ٹیکس صفر ہے مگر پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی 60 روپے ہے۔ اب یہ لیوی بھی ٹیکس ہی ہوتا ہے مگر ڈاکٹر حامد کے مطابق اس پر صوبے اپنا حق نہیں جتا سکتے اور اس طرح یہ پیسہ وفاق کے پاس ہی رہتا ہے۔
شہباز رانا کے مطابق اصل مسئلہ حکومت کی ترجیحات کا ہے کیونکہ اس وقت تنخواہ دار طبقہ بڑے بڑے سرمایہ داروں سے کئی گنا زیادہ سالانہ ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق ٹیکس نطام کی سب سے بڑی خامی ہی یہی ہے کہ کم آمدنی والوں پر زیادہ بوجھ ڈال دیا گیا ہے یعنی غریب آدمی امیر سے زیادہ ٹیکس دے رہا ہے۔
ان کے مطابق جہاں تنخواہ دار طبقے سے حکومت نے 265 ارب روپے ٹیکس وصول کیا ہے وہیں درآمد کنندگان سے صرف 74 ارب روپے ٹیکس وصول کیا گیا ہے۔
شہباز رانا کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے عام آدمی پر زیادہ فرق پڑے گا اور اس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا۔
تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیر حماد اظہر نے سوشل میڈیا پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’ڈالر بھی 305 اور پیٹرول بھی۔ مارچ 2022 سے اب تک کتنا کچھ بدل گیا۔ جس طرف معاملات جا رہے ہیں الیکشن 90 کی بجائے 60 دن میں کرانا چاہییں۔ نگران حکومت بھی پی ڈی ایم کی طرح کسی کام کی نہیں۔ ملک کو فوری بے یقینی اور عدم استحکام سے نکالنا ہو گا ورنہ معاشی اور سیاسی افراتفری کا خطرہ ہے۔‘

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں